یوم شہادت غازی علم الدین شہید
31 اکتوبر 1929
یومِ شہادت غازی علم الدین شہید
آج محبوب سے ملاقات کا دن ہے
آج نیند کیسے آ سکتی ہے
آج تو میانوالی مہک رہا ہے
آج ہی تو جشن ہے
آج غازی کی بارات ہے
آج ہی محبوب کی دید ہے
آج ہی تو غازی کی عید ہے
31 اکتوبر 1929 کو غازی علم دین نے حسب معمول تہجد کی نماز ادا کی
اور بارگاہ الٰہی میں دعا گو تھے کہ بھاری قدموں کی چاپ سنائی دی اور قدموں کی آواز کمرے کے سامنے آ کر رک گئی
غازی علم دین نے ادھر دیکھا تو پھانسی دینے والے عملے کو اپنا منتظر پایا
اس موقع پر داروغہ جیل کی آنکھوں سے شدت جذبات سے آنسو بہ نکلے
آپ نے اس سے کہا گواہ رہنا میری آخری خواہش کیا تھی
آپ نے معمول سے بھی کم وقت میں نماز ادا کی
اتنی جلدی آخر کس لئے تھی
محبوب سے ملاقات کی جلدی تو ہوتی ہے
آپ اٹھے آگے بڑھے
دایاں پاؤں کمرے سے باہر رکھا
مجسٹریٹ سے کہا چلیے دیر نا کیجیے
اور اس کے آپ ساتھ لمبے لمبے قدم اٹھاتے تختہ دار کی جناب روانہ ہو گئے
جس دھج سے کوئی مقتل میں گیا وہ شان سلامت رہتی ہے
یہ جان تو آنی جانی ہے اس جاں کی تو کوئی بات نہیں
میدان وفا دربار نہیں یاں نام و نسب کی پوچھ کہاں
عاشق تو کسی کا نام نہیں کچھ عشق کسی کی ذات نہیں
گر بازی عشق کی بازی ہے جو چاہو لگا دو ڈر کیسا
گر جیت گئے تو کیا کہنا ہارے بھی تو بازی مات نہیں
اور یہاں تو مات کا سوال ہی نہ تھا
رب کعبہ کی قسم میں کامیاب ہو گیا
ایک کمرے کے سامنے سے گزرتے ہوئے آپ نے ہاتھ اٹھا کر ایک قیدی کو خدا حافظ کہا جواباً اس نے نعرہ رسالت بلند کیا
تب جیل حکام اور مجسٹریٹ کو معلوم ہوا کہ جیل کے سبھی قیدی علم دین کو مبارک باد دینے کے لئے ساری رات سے جاگ رہے ہیں
فضا کلمہ شہادت کے ورد سے گونج رہی تھی۔ آپ کی آنکھوں پر سیاہ پٹی باندھ کر سیاہ لباس پہنایا گیا۔ آخری خواہش پوچھی گئی
فرمایا
پھانسی کا پھندہ چوم کر خود اپنے گلے میں ڈالنا چاہتا ہوں
بعد ازاں ان کے پاؤں باندھ دیے گئے
آپ نے ارد گرد کے لوگوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا
تم گواہ رہو میں نے حرمت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے راجپال کو قتل کیا
اور گواہ رہنا میں عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں کلمہ شہادت پڑھتے ہوئے جان دے رہا ہوں
غازی نے اپنے محبوب کا کلمہ بلند آواز سے پڑھا
اس کلمے کی الگ ہی شان تھی
اس گواہی کی تو بات ہی الگ تھی
غازی نے رسن دار کو بوسہ دیا
آپ کے گلے میں رسا ڈال دیا گیا
مجسٹریٹ کا ہاتھ فضا میں بلند ہوا اور ایک خفیف سے اشارے کے ساتھ تختہ ان کے پاؤں کے نیچے سے کھینچ لیا گیا
چند لمحوں میں آپ کی روح قفس عنصری سے پرواز کر گئی۔ اس نے آپ کو تڑپنے پھڑکنے کی بھی زحمت نا دی
ڈاکٹر نے موت کی تصدیق کی اور آپ کی لاش کو اتار لیا گیا
تختہ دار بنانا تو کوئی بات نہیں
نعرہ حق کی کوئی اور سزا دی جائے
غازی صاحب کا پہلا نماز جنازہ جو کہ میانوالی میں پڑھا گیا۔ مولوی غلام مصطفیٰ زادے خیل نے پڑھایا اس کے بعد شورش ہونے کی وجہ سے انگریز حکومت نے جلدی جلدی میانوالی جیل کے پاس قبرستان میں سپردِ خاک کر دیا۔ غازی کو اس حال میں دفن کیا گیا تھا کہ غازی کے جسم اور مٹی کے بیچ فقط ایک چادر تھی
میانوالی کا وہ قبرستان جس کو غازی کا پہلا مدفن ہونے کا اعزاز حاصل ہے اس میں آج بھی ایک خالی قبر موجود ہے اس قبر میں غازی علم الدین شہید نے 31 اکتوبر 1929 سے 14 نومبر 1929 تک آرام فرمایا تھا
Comments
Post a Comment